روحانی ڈائجسٹ دسمبر 1978ء کا سرورق |
Roohani Digest 1978 12 Dece... by Roohani DIgest on Scribd
دسمبر 1978 ء بمطابق محرم الحرام 1399ھ روحانی ڈائجسٹ کا پہلا شمارہ حضور قلندر بابا اولیائؒ کی جسمانی حیات میں آپؒ کی زیرِسرپرستی، خواجہ شمس الدین عظیمی کی زیر ادارت شائع ہوا۔ اُس وقت اِس شمارے کی قیمت 5 روپے اور صفحات کی تعداد 98 تھی۔ روحانی ڈائجسٹ کی سب سے پہلی تحریر حمدِ باری تعالیٰ تھی جس میں سورۂفاتحہ کو حمد کی صورت میں نظم کیا گیا تھا۔ اُس کے بعد نعتِ رسولِ مقبولﷺ اور حضور قلندر بابا اولیائؒ کی منتخب رباعیات تھیں۔ مدیر اعلیٰ خواجہ شمس الدین عظیمی کا اداریہ ’’آوازِ دوست‘‘ اِس رسالہ کے اغراض و مقاصد کا ترجمان تھا۔ اگلے صفحے پر راہِ سلوک کے مسافروں کی کیفیات و وار دات پر مبنی سلسلہ ’’واردات‘‘ تھا۔ یہ سلسلہ اپنی نوعیت کا نہایت منفرد سلسلہ تھا جس کے ذریعے لوگوں میں آگہی پیدا ہوئی کہ روحانیت بھی ایک باقاعدہ مشاہداتی علم ہے اور اِس دوران مبتدی پر مختلف روحانی کیفیات و واردات مرتب ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کے نفسیاتی مسائل اور الجھنوں کے روحانی و نفسیاتی حل کے لئے ’’آپ کے مسائل‘‘ کا مستقل سلسلہ تھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی اِس سے قبل بھی مختلف اخبار و جرائد میں مسائل کے روحانی حل کا کالم تحریر کرتے رہے تھے اور یہ کالم عوام و خواص میں خاصے مقبول تھے، چنانچہ ’’آپ کے مسائل‘‘ خدمتِ خلق کے مشن کا تسلسل تھا۔ اس شمارے میں ایک نہایت اہم تحریر حضور قلندر بابا اولیائؒ کی کتاب ’’لوح و قلم‘‘ کی سلسلہ وار اشاعت کی ابتدائی قسط تھی۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بطریقِ اویسیہ حضور بابا صاحبؒ کو یہ کتاب تحریر کرنے کا حکم دیا تھا۔ دیگر مستقل مضامین میں خواب اور تعبیر، محفلِ مراقبہ، کراماتِ اولیائؒ، امہات المومنین، پُراسرار ہیولہ شامل تھے۔ اِن کے علاوہ مچھلیوں میں عشق و محبت کے جذبات پر مبنی تحریر ’’عشقِ ماہی‘‘ ، ایک تحیر خیز کہانی ’’سانپ‘‘، حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصے میں پنہاں اﷲ تعالیٰ کی مشیئت اور حکمت پر مبنی تحریر ’’حکمت لُدّنی‘‘ اور اسیرانِ کربلاشامل تھے۔ اِس شمارے میں صحت و تندرستی کے موضوعات پر مضامین بھی شامل تھے خصوصاً ’’حیاتین سے بھرپور غذا‘‘۔۔۔۔۔ روحانی ڈائجسٹ کے پہلے شمارے میں متفرق صفحات پر سبق آموز حکایات اور فکر انگیز تراشے بھی شائع ہوئے جن میں امانت، بے نیازی، موت اور معالج، محاسبہ، اسلامی سربراہ کی تنخواہ اور امام غزالی ؒ کے عنوانات کے علاوہ حسن بصریؒ اور حاتم اصمؒ کے اقوال شامل ہیں۔
========================================================================
مضامین | لکھاری | موضوع |
---|---|---|
حمد | --- | اللہ کی حمد اللہ کی زبانی |
نعت | --- | صلی اللہ تعالی علیٰ حبیبہٖ محمد وسلم |
رباعیات | قلندر بابا اولیاء | اسرار و رموز کے سمندر میں دُرّ ناسفتہ |
آوازِ دوست | ایڈیٹر | صلی اللہ تعالی علیٰ حبیبہٖ محمد وسلم |
واردات | ادارہ | ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں |
لوح و قلم | قلندر بابا اولیاء | جس کو پڑھ کر ایک روحانی عالم منکشف ہوجائے گا |
پراسرار ہیولا | صادق الاسرار | انسان کے اوپر لپٹے ہوئے تین پرت کی کہانی |
عشقِ ماہی | ڈاکٹر ظفر علی راجا | مچھلیاں بھی عشق کرتی ہیں |
آپ کے مسائل | خواجہ شمس الدین عظیمی | الجھنوں کا روحانی نفسیاتی حل |
حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ۔ امہات المومنین | محمد زبیر | سب سے بہتر اس امت کی عورتوں میں خدیجہؓ ہیں |
حیاتین سے بھرپور غذا | اختر احمد خان | اُگایا ہوا اناج اور ہماری صحت |
کراماتِ اولیاء | نواسۂ بابا صاحب | تاج الاولیاء حضرت تاج الدین ناگپوری ؒ کی چند کرامات |
خواب کی تعبیر | خواجہ شمس الدین عظیمی | خواب کی تعبیر سے مستقبل کا انکشاف |
سانپ | اکرم کامل | عورت کی کوکھ سے سانپ کی پیدائش |
حکمتِ لُدنی | وقار یوسف | حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصے میں اللہ تعالیٰ کی مشیت و حکمت |
محفلِ مراقبہ | احمد جمال عظیمی | خواجہ صاحب کی زیرِ سرپرستی منعقد ہونے والی محفلِ مراقبہ کی روئداد |
اسیرانِ کربلا | علامہ راشد الخیری | سانحۂ کربلا پر بی بی زینب کے ارشادات |
متفرقات | --- | --- |
========================================================================
دسمبر 1978ء کے شمارے سے چند منتخب مضامین
========================================================================حمد
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
الْحَمْدُ للّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۔ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ۔
مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ۔ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ۔ اهدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ ۔
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ ۔
========================================================================
نعت
یَا صاحِبُ الجَمال و یَا سَیِدُ البَشر
مِن وَجھِکَ المُنیر، لَقَد نَورَ القَمَر
لا یُمکِنُ الثَنَاءُ کَمَا کَانَ حَقُہ
بَعد از خُدا بزرگ تُوئی قصّہ مختصر.
========================================================================
رباعیات
محرم نہیں راز کا وگرنہ کہتا
اچھا تھا کہ اِک ذرہّ ہی آدم رہتا
ذرّہ سے چلا چل کے اَجل تک پہنچا
مٹی کی جفائیں یہ کہاں تک سہتا
-
اِک لفظ تھا اِک لفظ سے افسانہ ہوا
اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا
گردُوں نے ہزار عکس ڈالے ہیں عظیم
میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا
-
معلوم نہیں کہاں سے آنا ہے مرا
معلوم نہیں کہاں پہ جانا ہے مرا
یہ علم کہ کچھ علم نہیں ہے مجھ کو
کیا علم کہ کھونا ہے کہ پانا ہے مرا
-
مٹی میں ہے دفن آدمی مٹی کا
پُتلا ہے وہ اک پیالہ بھری مٹی کا
مئے خار پیئں گے جس پیالہ میں شراب
وہ پیالہ بنے گا کل اِسی مٹی کا
-
========================================================================
آوازِ دوست
اﷲ کا شکر ہے کہ اُس نے آپ کی دعائوں اور ہماری کوششوں کو شرفِ قبول بخشا اور ایسے حالات پیدا کردیئے کہ ہم آپ کی خدمت میں سماوی علوم پر مشتمل ایک دستاویز ’’روحانی ڈائجسٹ‘‘ کے نام سے پیش کر رہے ہیں۔
روحانیت کیا ہے؟۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا معمّہ ہے جس کو جتنا زیادہ سمجھانے یا سمجھنے کی سعیٔ لاحاصل کی گئی یہ مزید اُلجھتاچلاگیا۔ جو حضرات اس علم کو واقعتا جانتے تھے اُنہوں نے اس کو اس لئے ظاہر نہیں کیاتاکہ کوئی غیر روحانی آدمی ان رموز کو نہ پڑھ سکے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہر بات کے فاش ہونے کا ایک وقت مقرر ہے، جب یہ وقت آتا ہے تو اُس وقت وہ سب چیزیں پردہ عام پر آجاتی ہیں جو غیب میں چھپی ہوئی ہیں۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سائنس کی نت نئی ایجادات نے شعور کو اس حد تک بالغ کردیا کہ وہ باتیں جو پہلے سمجھ میں نہیں آتی تھیں یا شعورِ انسان اُن پر یقین کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا، لاسلکی نظام کے اس دَور میں آسانی کے ساتھ ذہن نشین ہوجاتی ہیں۔ صفحات کے لحاظ سے مختصر اور مضامین کے اعتبار سے مکمل، ہم اس رسالہ میں ایسے علوم پیش کرنے کا آغا ز کر رہے ہیں جو اب تک عوامِالناس کے سامنے نہیں آئے اور فی الواقع نوعِ انسانی کو جن کی ضرورت ہے۔
منشاء یہ ہے کہ لوگوں کو ان کی اندرونی صلاحیتوں سے آگاہ کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ ذہن انسانی آج جن مصائب و آلام، دماغی خلفشار، بے سکونی، اضطراب اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہے دراصل اس کی وجہ روح اور اپنی ذات سے بیگانگی اور ناواقفیت ہے۔ روح سے واقف کوئی فرد، اﷲ کا دوست ہوتا ہے اور اﷲ کے دوست کے لئے خوف ہوتا اور نہ کوئی غم
الا ان اولیاء اﷲ لاخوف علیہم ولا ہم یحزنون
روحانی ڈائجسٹ کا یہ شمارہ آپ کے سامنے ہے اس میں ہم نے اﷲ کے نُور سے مرکب تحریریں جمع کی ہیں۔ اس مقصد میں ہم کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں، یہ بات آپ ہمیں بتائیں گئے۔ آپ کے اس منفرد ماہنامہ میں اور کیا کیا تبدیلیاں ہونی چاہئیں اس سلسلہ میں بھی ہم آپ کے مشوروں کے منتظر ہیں۔ رسالہ کے صفحات دوسرے ڈائجسٹوں کے مقابلے میں کم ہیں۔ وجہ ہمارے مالی وسائل میں کمی ہے۔ جیسے جیسے آپ کا مزید تعاون بڑھے گا ہم صفحات اور ان کی تزئین میںاضافہ کرتے رہیں گے۔
درخواست ہے کہ آپ اس روحانی مشن کی کامیابی کے لئے بارگاہِ ربّ العزت میں حضوریٔ قلب سے دعا کریں اور خدمت خلق کے اس پروگرام کو لوگوں تک پہنچائیں۔
دعاگو۔۔۔۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
========================================================================
لوح و قلم
نوعِ انسانی میں زندگی کی سرگرمیوں کے پیشِ نظر طبائع کی مختلف ساخت ہوتی ہیں مثلاً ساخت الف، بے، پے، چے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ یہاں زیرِ بحث وہ ساخت ہے جو قدم قدم چلاکر عرفان کی منزل تک پہنچاتی ہے۔
پہلے ہم ایک مادّی مثال دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مصّور ہونا چاہے تو وہ تصویر کے خدوخال کو اپنی طبیعت میں رفتہ رفتہ جذب کرتا جاتا ہے۔ اُس کے حافظے میں یہ بات محفوظ ہے کہ کانوں کی ساخت کے لئے پنسل کے ایک خاص وضع کے نشانات استعمال ہوں گے، آنکھوں کی ساخت کے لئے دوسری وضع کے، بالوں کی ساخت کے لئے تیسری وضع کے۔۔۔۔۔ مشق کرتے کرتے وہ انسانی جسم کے ہر عضو کی ساخت کو پنسل کے نقش کی صورت میں پوری طرح ظاہر کرنے پر قابو پاجاتا ہے۔ اب ہم اس کو مصّور کہہ سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ کس طرح ہوا؟۔۔۔۔۔۔
اس کے ذہن میں انسانی خدوخال کا عکس موجود تھا۔ جب اُس عکس کو نقل کرنے کے لئے اُس نے پنسل استعمال کرنا چاہی تو وہ عکس جو اُس کے ذہن میں موجود تھا بار بار اُس کی رہنمائی کرتا رہا۔ ساتھ ساتھ جس استاد نے اس کو مصّوری کا فن سکھایا وہ یہ بتلاتا گیا کہ پنسل اِس طرح استعمال کی جاتی ہے اور کسی عضو کے نقش کو ترتیب دینا اِس طرح عمل میں آتا ہے۔ اُستاد کا کام صرف اِس ہی قدر تھا۔لیکن تصویر کا عکس اُستاد نے اُس کے ذہن میں منتقل نہیں کیا ۔ وہ اُس کے باطن میں پہلے سے موجود تھا۔۔۔۔۔ دوسرے الفاظ میں ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اُس کی روح کے اندر نوع انسانی کے ہزار در ہزار خدوخال محفوظ تھے جب اُس نے ایک اُستاد کی رہنمائی میں اُن خدوخال کو کاغذ پر نقش کرنا چاہا تو وہ تمام نقوش جو ذہن میں موجود تھے، کاغذ پر منتقل ہوگئے۔
علیٰ ہذالقیاس مادّی فنون کی اس قسم کی ہزار ہا مثالیں ہوسکتی ہیں جن سے ہم ایک ہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان بالطبع مصّور، کاتب، درزی، لوہار، بڑھئی، فلسفی، طبیب وغیر ہ وغیرہ سب کچھ ہوتا ہے مگر اُسے کسی خاص فن میں ایک خاص قسم کی مشق کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بعد اُس کے مختلف نام رکھ لئے جاتے ہیں اور ہم اس طرح کہتے ہیں کہ فلاں شخص مصّور ہوگیا۔۔۔۔۔ فلاں شخص فلسفی ہوگیا۔۔۔۔۔ فی الواقع وہ تمام صلاحیتیں اور نقوش اُس کے ذہن میں موجود تھے صرف اُس نے اُن کو بیدار کیا۔ استاد نے جتنا کام کیا وہ صرف صلاحیت کے بیدار کرنے میں ایک امداد ہے۔
اب اہم اصل مقصد کی طرف آتے ہیں۔ جس طرح کوئی شخص مصّور، کاتب یا فلسفی ہوتا ہے اُسی طرح بالطبع اپنی رُوح کے اندر ایک عارف، ایک روحانی انسان، ایک ولی، ایک خداشناس، ایک پیغمبر، خاص قسم کے روحانی نقوش اور خاص قسم کی روحانی صلاحیتیں لئے ہوتا ہے (یہاں کوئی پیغمبر زیرِ بحث اس لئے نہیں کہ پیغمبری ختم ہوچکی ہے۔ صرف رُوحانی انسان اس کا نام کچھ بھی ہو ہمارا مطمع نظر ہے) اب ہم صلاحیتوں کا ذکر الف سے شروع کرتے ہیں ۔
الف: ایک انسان کیا ہے؟۔۔۔۔۔ ہم اس کو کس طرح پہچانتے ہیں اور کیا سمجھتے ہیں؟۔۔۔۔۔
ہمارے سامنے ایک مجسمہ ہے جو گوشت پوست سے مرتب ہے۔ طبی نقطۂ نظر سے ہڈیوں کے ڈھانچہ پر رگ پٹھوں کی بناوٹ کو ایک جسم کی شکل وصورت دی گئی ہے۔ ہم اُس کا نام جسم رکھتے ہیں اور اس کو اصل سمجھتے ہیں۔ اُس کی حفاظت کے لئے ایک چیز اختراع کی گئی ہے جس کا نام لباس ہے۔ یہ لباس سوتی کپڑے کا ، اُونی کپڑے کا یا کسی کھال وغیرہ کا ہوا کرتا ہے۔ اُس لباس کا محلِاستعمال صرف گوشت پوست کے جسم کی حفاظت ہے۔ فی الحقیقت اُس لباس میں اپنی کوئی زندگی یا اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ جب یہ لباس جسم پر ہوتا ہے تو جسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے۔ یعنی اُس کی حرکت جسم سے منتقل ہوکر اس کو ملی۔ لیکن درحقیقت وہ جسم کے اعضاء کی حرکت ہے۔ جب ہم ہاتھ اُٹھاتے ہیں تو آستین بھی گوشت پوست کے ہاتھ کے ساتھ حرکت کرتی ہے یہ آستین اس لباس کا ہاتھ ہے۔۔۔۔۔ جو لباس جسم کی حفاظت کے لئے استعمال ہو اہے اُس لباس کی تعریف کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ جب یہ لباس جسم پر ہے تو جسم کی حرکت اس کے اندر منتقل ہوجاتی ہے اور اگر اس لباس کو اُتار کر چارپائی پر ڈال دیا جائے یا کھونٹی پر لٹکادیا جائے تو اس کی تمام حرکتیں ساقط ہوجاتی ہیں۔اب ہم اس لباس کا جسم کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ اس کی کتنی ہی مثالیں ہوسکتی ہیں یہاں صرف ایک مثال دے کر صحیح مفہوم ذہن نشین ہوسکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی مرگیا۔۔۔۔۔ مرنے کے بعد اُس کے جسم کو کاٹ ڈالئے۔۔۔۔۔ ٹکڑے ٹکڑے کردیجئے، گھسیٹئے، کچھ بھی کیجئے جسم کی اپنی طرف سے کوئی مدافعت کوئی حرکت عمل میں نہیں آئے گی۔ اس مُردہ جسم کو ایک طرف ڈال دیجئے تو اُس میں زندگی کا کوئی شائبہ کسی لمحہ بھی پیدا ہونے کا امکان نہیں ہے اس کو جس طرح ڈال دیا جائے گا پڑا رہے گا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مرنے کے بعد جسم کی حیثیت صرف لباس کی رہ جاتی ہے اصل انسان اس میں موجود نہیں رہتا۔۔۔۔ وہ اُس لباس کو چھوڑ کر کہیں چلا جاتا ہے۔ جب مشاہدات اور تجربات نے یہ فیصلہ کردیا کہ گوشت پوست کا جسم لباس ہے اصل انسان نہیںتو یہ تلاش کرنا ضروری ہوگیا کہ اصل انسان کہاں ہے اور کہاں چلا گیا؟۔۔۔۔۔
اگر یہ جسم اصل انسان ہوتا تو کسی نہ کسی نوعیت سے اُس کے اندر زندگی کاکوئی شائبہ ضرور پایا جاتا لیکن نوعِانسانی کی مکمل تاریخ ایسی ایک مثال بھی پیش نہیں کرسکتی کہ کسی مُردہ جسم نے کبھی کوئی حرکت کی ہو۔
اس صورت میں ہم اُس انسان کا تجسس کرنے پر مجبور ہیں جو جسم کے اس لباس کو چھوڑ کر کہیں رُخصت ہوگیا ہے۔ اُسی انسان کا نام انبیاء کرام علیہم السلام کی زبان میں رُوح ہے اور وہی انسان کا اصلی جسم ہے۔ نیز یہی جسم ان تمام صلاحیتوں کا مالک ہے جن کے مجموعے کو ہم زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔
ذرا زندگی کے مختلف شعبوں اور زاویوں میں یہ تلاش کیجئے کہ وہ حالت جس کا نام موت یا مُرد ہ ہوجانا ہے کہیں ملتی ہے یا نہیں۔۔۔۔۔ اگر یہ حالت قطعی طور پر زندگی کے کسی مرحلہ میں انسان پر طاری نہیں ہوتی تو پھر یہ تلاش کرناچاہئے کہ اس سے ملتی جلتی حالت کسی وقفہ میں طاری ہوتی ہے یا نہیں۔۔۔۔۔
اس کا جواب بہت آسان ہے انسان روز سوتا ہے اور سونے کی حالت میں اس کا جسم ایک خاص وقفہ کے اندر بالکل لباس کی نوعیت اختیار کرلیتا ہے۔ اس بات کی تشریح ہم اس طرح کرسکتے ہیں کہ انسان جب گہری نیند میں ہوتا ہے۔ ایسی گہری نیند میں کہ وہ صرف سانس لے رہا ہے۔ سانس لینے کے علاوہ زندگی کا اثر اس میں نہیں پایاجاتا۔۔۔۔۔ نہ اس کے کسی عضو میں حرکت ہے، نہ اس کا دماغ کسی طرح کا ہوش رکھتا ہے۔ یہ حال چاہے دو منٹ کے لئے طاری ہو، دس منٹ کے لئے ہو یا ایک گھنٹے کے لئے۔۔۔۔۔ کسی نہ کسی وقت ہوتا ضرور ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ انسان کا جسم سانس لے رہاہے یعنی اس کے اندر زندگی کا ایک اثر باقی ہے مگر اور آثار زائل ہوچکے ہیں۔ اس حالت کو ہم کسی حد تک موت سے ملتی جلتی حالت کہہ سکتے ہیں۔
جس کو ہم خواب دیکھنا کہتے ہیں ہمیں رُوح اور رُوح کی صلاحیتوں کا سُراغ دیتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ہم سوئے ہوئے ہیں تمام اعضاء بالکل معطل ہیں، صرف سانس کی آمد وشد جاری ہے لیکن خواب دیکھنے کی حالت میں ہم چل پھر رہے ہیں ، باتیں کر رہے ہیں، سوچ رہے ہیں، غمزدہ اور خوش ہو رہے ہیںکوئی کام ایسا نہیں ہے کہ جو ہم بیداری کی حالت میں کرتے ہیں اور خواب کی حالت میں نہیں کرتے!۔۔۔۔۔ کوئی شخص یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ خواب دیکھنا صرف ایک خیالی چیز ہے اور خیالی حرکات ہیں کیونکہ جب ہم جاگ اُٹھتے ہیں تو کئے ہوئے اعمال کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔ یہ بات بالکل لایعنی ہے۔ ہر شخص کو زندگی میں ایک، دو، چار، دس، بیس ایسے خواب ضرور نظر آتے ہیں کہ جاگ اُٹھنے کے بعد یا تو اُسے نہانے اور غسل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے یا کوئی ڈرائونا خواب دیکھنے کے بعد اس کا پورا خوف و دہشت دل و دماغ پر مسلّط ہوتا ہے یا جو کچھ خواب میں دیکھا ہے وہی چند گھنٹے، چند دن یا چند مہینے یا چند سال بعد من و عن بیداری کی حالت میں پیش آتاہے۔ ایک فردِ واحد بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے اپنی زندگی میں اس طرح کا ایک خواب یا ایک سے زائد خواب نہ دیکھے ہوں گے۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر اس بات کی تردید ہوجاتی ہے کہ خواب محض خیالی حیثیت رکھتا ہے۔ جب یہ مان لیا گیا کہ خواب محض خیال نہیں ہے تو خواب کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔
اب ہم بیداری کے اعمال اور واقعات نیز خواب کے اعمال اور واقعات کو سامنے رکھ کر دونوں کا موازنہ کرتے ہیں۔یہ روزمّرہ ہوتا ہے کہ ہم گھر سے چل کر بازار پہنچ گئے۔۔۔۔ کسی ایک خاص دکان پر کھڑے ہیں اور ایک سودا خرید رہے ہیں۔ اگر اُس وقت کوئی شخص ہم سے یہ سوال کرے کہ دوکان پر پہنچنے تک راستے میں آپ نے کیا کیا دیکھا تو ہم مجبوراً یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے کچھ خیال نہیں کیا۔ بات یہ معلوم ہوئی کہ بیداری کی حالت میں ہمارے اردگرد جو کچھ ہوتا ہے اگر ہم پوری طرح متوجہ نہ ہوں تو کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ کیا ہوا۔۔۔۔۔ کس طرح ہوا اور کب ہوا؟۔۔۔۔۔
اس مثال سے یہ تحقیق ہوجاتا ہے کہ بیداری ہو یا خواب، جب ہمارا ذہن کسی چیز کی طرف یا کسی کام کی طرف متوجہ ہے تو اس کی اہمیت ہے ورنہ بیداری اور خواب دونوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بیداری کا بڑے سے بڑا وقفہ بے خیالی میں گزرتا ہے اور خواب کا بھی بہت سا حصہ بے خبر ی میںگزر جاتا ہے۔ کتنی ہی مرتبہ خواب کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور کتنی ہی مرتبہ بیداری کی کوئی بھی اہمیت نہیں ہوتی۔ پھر کیونکر مناسب ہے کہ ہم خواب کی حالت اور خواب کے اجزاء کو جو زندگی کا نصف حصہ ہے نظر انداز کردیں۔
آئیے، خواب کے اجزائ، خواب کی اہمیت اور خواب کی حقیقت تلاش کریں۔
فرض کیجئے کہ ایک مضمون نگار، مضمون لکھنے بیٹھتا ہے۔ اُس کے ذہن میں صرف عنوان ہے۔ نہ مضمون کے اجزائے ترتیبی ہیں نہ تفصیل ہے۔ مگر وہ جس وقت قلم ہاتھ میں اُٹھا کر لکھنا شروع کرتا ہے تو مضمون کے اجزائے بالترتیب اور بالتفصیل ذہن میں آنے لگتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عبارت کا مفہوم لکھنے والے کے تحت لاشعور میں پہلے سے موجود تھا۔ وہاں سے یہ مفہوم لاشعور یعنی ذہن میں منتقل ہوا اور الفاظ کا لباس پہن کر کاغذ پر منتقل ہوگیا۔ یہ مضمون مفہوم کی حیثیت میں جہاں موجود تھا اُس کا نام ثابتہ ہے جس کو ماہرینِ نفسیات تحت لاشعور کہہ سکتے ہیں۔ پھر یہی مفہوم منتقل ہوکر اعیان میں آیا۔ یعنی لاشعور میں داخل ہوا۔ آخر میں یہی مفہوم عبارت کی شکل و صورت اختیار کرلیتا ہے۔ ہم اسی حالت کو جویّیہ میں منتقل ہونا کہتے ہیںاور عام لوگ مفہوم کی اس منتقلی کو شعور میں آنے کانام دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی ہر چیز کو احاطہ کرنے والی صفت کا تذکرہ ہے۔ اس صفت کا عکس انسان کی روح میں پایا جاتا ہے۔ اس ہی عکس کے ذریعے انسان کا تحت لاشعور عالم رویا کائنات کی ہر چیز سے واقف ہے۔
نمبر۲ ۔۔۔۔۔۔ کشف الاحقہ
نمبر۳ ۔۔۔۔۔۔ کشف المنام
نمبر۴ ۔۔۔۔۔۔ کشف الملکوت
نمبر۵ ۔۔۔۔۔۔ کشف الکلیات
نمبر۶ ۔۔۔۔۔۔ کشف الوجوب
اس ہی حکم کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی احاطہ کرنے کی صفت کلیات کو منتقل ہوئی ہے۔
کلیات کے تمام اجزاء آپس میں ایک دوسرے کا شعور رکھتے ہیں۔ چاہے فرد کے علم میں یہ بات نہ ہو لیکن فرد کی حیثیت کلیات میں ایک مقام رکھتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان چاند، ستاروں اور اپنی زمین سے الگ ماحول سے روشناس نہ ہو سکتا۔ اس کی نگاہ تمام اجرام سماوی کو دیکھتی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر انسان کی حس زمین سے باہر کے ماحول کو بھی پہچانتی ہے۔ یہی پہچاننا تصوف کی زبان میں صفات الٰہیہ کی معرفت کہلاتا ہے۔ اب ہم اس طرح کہیں گے کہ انسانی شعور کی نگاہ کائنات کے ظاہر کو دیکھتی ہے اور انسانی لاشعور کی نگاہ کائنات کے باطن کو دیکھتی ہے۔ بالفاظ دیگر انسان کا لاشعور اچھی طرح جانتا ہے کہ کائنات کے ہر ذرے کی شکل وصورت، حرکات اور باطنی حسیات کیا ہیں۔ وہ ان تمام حرکات کو صرف اس لئے نہیں سمجھ سکتا کہ اس کو اپنے لاشعور کا مطالعہ کرنا نہیں آتا۔ یہ مطالعہ رویا کی صلاحیتیں بیدار کرنے کے بعد ممکن ہے۔
پہلے ہم رُویا کی اُس صلاحیت کو بیدار کرنے کا تذکرہ کرتے ہیں جس کا نام تصوف کی زبان میں کشف الجُو لیا جاتا ہے۔
مضمون نگار کی مثال سے ظاہر ہے کہ مضمون کا مفہوم پہلے سے کلیات کے شعور میں یعنی مضمون نگار کے تحت لا شعور میں موجود تھا۔
وہیں سے منتقل ہو کر مضمون نگار کے ذہن تک پہنچا۔ اب اگر کوئی شخص اس مضمون کو تحت لاشعور میں مطالعہ کرنا چاہے تو رویا کی اس صلاحیت کے ذریعے جس کو کشف الجُو کہا گیا ہے، مطالعہ کر سکتا ہے۔ خواہ یہ مضمون دس ہزار سال بعد لکھا جانے والا ہو۔ یا دس ہزار سال پہلے لکھا جا چکا ہو۔
جس وقت اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’کُن‘‘ کہا تو ازل سے ابد تک جو کچھ جس طرح اور جس ترتیب کے ساتھ وقوع میں آنا تھا، آ گیا۔ ازل سے ابد تک ہر ذرہ، اس کی تمام حرکات و سکنات موجود ہو گئیں۔ کسی زمانہ میں بھی انہی حرکات کا مظاہرہ ممکن ہے کیونکہ کوئی غیر موجود، موجود نہیں ہو سکتا۔ یعنی کائنات میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہو سکتی جو پہلے سے وجود نہ رکھتی ہو۔
انسان جب کسی زاویہ کو صحیح طور پر سمجھنا چاہتا ہے تو اس کی حیثیت غیر جانبدار یا عدالت کی ہوتی ہے اور وہ بحیثیتِ عدالت کبھی فریق نہیں ہوتا۔ عدالت کو مدعی اور مدعا علیہ کے معاملات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے عدالت ہی کا طرزِ ذہن استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک طرزِ ذہن فریق کا ہے اور ایک طرزِ ذہن عدالت کا ہے۔
ہر شخص کو طرز فکر کے دو زاویے حاصل ہیں۔ ایک زاویہ بحیثیت اہلِ معاملہ اور دوسرا زاویہ بحیثیت غیر جانبدار۔ جب انسان بحیثیت غیر جانبدار تجسس کرتا ہے تو اس پر حقائق منکشف ہو جاتے ہیں۔ تجسس کی یہ صلاحیت ہر فرد کو ودیعت کی گئی ہے تا کہ دنیا کا کوئی طبقہ معاملات کی تفہیم اور صحیح فیصلوں سے محروم نہ رہ جائے۔
شعور کا یہ قانون ہے کہ اس دنیا میں انسان جتنا ہوش سنبھالتا جاتا ہے اتنا ہی اپنے ماحول کی چیزوں میں انہماک پیدا کرتا جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں ماحول کی تمام چیزیں اپنی اپنی تعریف اور نوعیت کے ساتھ اس طرح محفوظ رہتی ہیں کہ جب اسے ان چیزوں میں سے کسی چیز کی ضرورت پیش آتی ہے تو بہت آسانی سے اپنی مفید مطلب چیز تلاش کر لیتا ہے۔
معلوم ہوا کہ انسانی شعور میں ترتیب کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں کے استعمال کی چیزیں اور حرکات موجود رہتی ہیں۔ گویا ماحول کا ہجوم انسانی ذہن میں پیوست ہے۔ ذہن کو اتنی مہلت نہیں ملتی کہ شعور کی حد سے نکل کر لاشعور کی حد میں قدم رکھ سکے۔
یہاں ایک اصول وضع ہوتا ہے کہ جب انسان یہ چاہے کہ میرا ذہن لاشعور کی حدوں میں داخل ہو جائے تو اس ہجوم کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرے۔ انسانی ذہن ماحول سے آزادی حاصل کر لینے کے بعد، شعور کی دنیا سے ہٹ کر لاشعور کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔
ذہن کے اس عمل کا نام استغناء ہے۔ یہ استغناء اللہ تعالیٰ کی صفتِ صمدیت کا عکس ہے جس کو عرفِ عام میں انخلائے ذہنی کہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس کی مشق کرنا چاہے تو اس کے لئے کتنے ہی ذرائع اور طریقے ایسے موجود ہیں جو مذہبی فرائض کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان فرائض کو ادا کر کے انسان خالی الذہن ہونے کی مہارت حاصل کر سکتا ہے۔
سلوک کی راہوں میں جتنے اسباق پڑھائے جاتے ہیں ان سب کا مقصد بھی انسان کو خالی الذہن بنانا ہے۔ وہ کسی وقت بھی ارادہ کر کے خالی الذہن ہونے کا مراقبہ کر سکتا ہے۔
مراقبہ ایک ایسے تصور کا نام ہے جو آنکھیں بند کر کے کیا جاتا ہے۔ مثلاً انسان جب اپنی فنا کا مراقبہ کرنا چاہے تو یہ تصور کرے گا کہ میری زندگی کے تمام آثار فنا ہو چکے ہیں اور اب میں ایک نقطۂ روشنی کی صورت میں موجود ہوں۔ یعنی آنکھیں بند کر کے یہ تصور کرے کہ اب میں اپنی ذات کی دنیا سے بالکل آزاد ہوں۔ صرف اس دنیا سے میرا تعلق باقی ہے جس کے احاطہ میں ازل سے ابد تک کی تمام سرگرمیاں موجود ہیں۔ چنانچہ کوئی انسان جتنی مشق کرتا جاتا ہے۔ اتنی ہی لوح محفوظ کی انطباعیت اس کے ذہن پر منکشف ہوتی جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ غیب کے نقوش اس اس طرح واقع ہیں اور ان نقوش کا مفہوم اس کے شعور میں منتقل ہونے لگتا ہے۔ انطباعیت کا مطالعہ کرنے کے لئے صرف چند روزہ مراقبہ کافی ہے۔
لوح محفوظ کائنات کی تخلیق سے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکامات کا مجموعۂ تصاویر ہے۔ کائنات کے اندر جو بھی حرکت واقع ہونے والی ہے اس کی تصویر من و عن لوح محفوظ پر نقش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ کا اختیار عطا کیا ہے۔ جب انسانی ارادوں کی تصاویر لوح محفوظ کی تصاویر میں شامل ہو جاتی ہیں اس وقت لوح اول لوح دوئم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس ہی لوح دوئم کو صوفیاء اپنی زبان میں ’’جُو‘‘ کہتے ہیں یعنی لوح محفوظ پہلا عالمِ تمثال ہے اور جُو دوسرا عالم تمثال ہے جس میں انسانی ارادے بھی شامل ہیں۔
پہلے اللہ تعالیٰ کی وہ تعریف بیان کرنا ضروری ہے جو قرآن پاک میں کی گئی ہیں:
قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدُٗoاَللہُ الصَّمَدُoلَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ oوَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدُo
ترجمہ:اے پیغمبرﷺ! کہہ دیجئے اللہ ایک ہے۔ بے نیاز ہے۔ نہ کسی نے اس کو جنا نہ اس نے کسی کو جنا۔ اور نہ اس کا کوئی خاندان ہے۔
========================================================================
ایک دن واکی شریف کے جنگل پہاڑی بٹے پر چند لوگوں کے ہمراہ چرھتے چلے گئے۔ نانا رحمۃ اللہ علیہ مسکرا کر کہنے لگے ‘‘ یہاں جس کو شیر کا ڈر ہو وہ چلا جائے ۔ میں تو یہاں ذرا سی دیر آرام کروں گا۔ خیال ہے کہ شیر ضرور آئے گا۔ جتنی دیر قیام کرے اس کی مرضی۔ تم لوگ خواہ مخواہ انتظار میں مبتلا نہ رہو۔ جاؤ، کھاؤ ، پیو اور مزہ کرو’’۔ بعض لوگ اِدھر اُدھر چھپ گئے اور زیادہ چلے گئے۔ میں نے حیات خاں سے کہا کیا ارادہ ہے....؟ پہلے تو حیات خان سوچتا رہا۔ پھر زیرِ لب مسکرا کر خاموش ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے پھر سوال کیا ‘‘ چلنا ہے یا تماشہ دیکھنا ہے؟’’۔
‘‘بھلا بابا صاحب کو چھوڑ کر میں کہاں جاؤں گا؟’’ حیات خاں بولا۔
گرمی کا موسم تھا۔ درختوں کا سایہ اور ٹھنڈی ہوا خمار کے طوفان اُٹھا رہی تھی۔ تھوڑی دور ہٹ کر میں ایک گھنی جھاڑی کے نیچے لیٹ گیا۔ چند قدم کے فاصلے پر حیات خاں اس طرح بیٹھ گیا کہ نانا تاج الدین ؒ کو کن انکھیوں سے دیکھتا رہے۔
اب وہ دبیز گھاس پر لیٹ چکے تھے۔ آنکھیں بند تھیں ۔ فضا میں بالکل سناٹا چھایا ہوا تھا۔ چند منٹ گزرے ہی تھے کہ جنگل بھیانک محسوس ہونے لگا۔ آدھا گھنٹہ، پھر ایک گھنٹہ۔ اس کے بعد کچھ وقفہ ایسے گزرگیا جیسے شدید انتظار ہو۔ یہ انتظار کسی سادھو، کسی جوگی، کسی ولی، کسی انسان کا نہیں تھا بلکہ ایک درندہ کا تھا جو کم از کم میرے ذہن میں قدم بقدم حرکت کررہا تھا۔ یکایک نانا رحمۃ اللہ علیہ کی طرف نگاہیں متوجہ ہوگئیں ۔ ان کے پیروں کی طرف ایک طویل القامت شیر ڈھلان سے اوپر چڑھ رہا تھا.... بڑی آہستگی خرامی سے ، بڑے ادب کے ساتھ۔
شیر نیم وا آنکھوں سے نانا تاج الدین ؒ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ذرا دیر میں وہ پیروں کے بالکل قریب آگیا۔
نانا گہری نیند میں بے خبر تھے۔ شیر زبان سے تلوے چھورہا تھا۔ چند منٹ بعد اُس کی آنکھیں مستانہ داری سے بند ہوگئیں ۔ سر زمین پر رکھ دیا۔
نانا تاج الدین ؒ ابھی تک سو رہے تھے۔
شیر نے اب زیادہ جرأت کرکے تلوے چاٹنے شروع کردیے اس حرکت سے نانا کی آنکھ کھل گئی۔ اُٹھ کر بیٹھ گئے ۔ شیر کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
کہنے لگے ‘‘ توآگیا۔ اب تیری صحت بالکل ٹھیک ہے۔ میں تجھے تندرست دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اچھا اب جاؤ’’۔شیر نے بڑی ممنونیت سے دُم ہلائی اور چلاگیا۔
میں نے ان واقعات پر بہت غور کیا۔ یہ بات کسی کو معلوم نہیں کہ شیر پہلے کبھی ان کے پاس آیا تھا۔ مجبوراً اس امر کا یقین کرنا پڑتا ہے کہ نانا اور شیر پہلے سے ذہنی طور پر ایک دوسرے سے روشناس تھے اور روشناسی کا طریقہ ایک ہی ہوسکتا ہے۔ انا کی جو لہریں نانا اور شیر کے درمیان ردّوبدل ہوتی تھیں وہ آپس کی اطلاعات کا باعث بنتی تھیں۔ عارفین میں کشف کی عام روش یہی ہوتی ہے لیکن اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ جانوروں میں بھی کشف اسی طرح ہوتا ہے۔ کشف کے معاملے میں انسان اور دوسری مخلوق یکساں ہیں ۔
نانا تاج الدینؒ نے والد کو خط لکھا کہ بیٹی سعیدہ کو ناگپور پہنچا دو۔ ان ایام میں وہ مہاراجہ رگھوراؤ کے پاس مقیم تھے۔ ہم لوگوں کے لئے شطرنج پورہ میں انتظام کیا گیا، روزانہ یا دوسرے دن نانا اپنی گھوڑا گاڑی میں تشریف لاتے، گھنٹوں ہمارے ساتھ گزارتے اکثر ارد گرد کی آبادی کے لوگوں کا آنا جانا رہتا۔ نانا ان کے معاملات میں غور کرنے میں اتنا دماغ صرف کر دیتے کہ حواس ماؤف ہو جاتے۔ ایک بار بے خیالی میں دروازے کی طرف جانے کے بجائے وہ دیوار کے پیچھے کھڑی گھوڑا گاڑی کی طرف بڑھتے چلے گئے اور ٹھوس دیوار سے گزر کر سڑک پر نکل گئے۔ غالباً! یہ کرامت ان سے غیر ارادی طور پر صادر ہوئی تھی، لوگوں کے معاملات کے متعلق سوچنے میں ان کا ذہن تجلی الٰہی میں تحلیل ہو گیا اور جسم ذہن کے تابع ہونے کی وجہ سے ثقل کی منزل سے آگے نکل گیا۔
نانا اس کی باتیں سن کر جھنجلا گئے اور چیخ کر بولے ‘‘جا دفان ہو جا۔ بھلا چنگا ہو کر لنگڑا بنتا ہے۔ جھوٹا کہیں کا’’ اور یہ کہہ کر لنگڑے کو مارنے کے لئے دوڑے۔ لنگڑا بیساکھی چھوڑ کر بھاگا۔ اب اس کی لنگڑی ٹانگ بالکل ٹھیک ہو چکی تھی۔
انسان علی شاہ، نانا تاج الدینؒ کے فیض یافتہ تھے۔ ان کو روحانی علوم پر عبور تھا اور سوچنے کی طرزیں بھی نانا سے ملتی تھیں۔ انہوں نے نانا کی حیات میں ترک وطن کر کے شکر درہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ایک دن لنگڑے کا واقعہ زیر بحث آ گیا۔
انسان علی شاہ کہنے لگے۔ اس واقعہ کی توجیہہ مشکل نہیں۔ یہ سمجھنا کہ کائنات اور ارتقائی مراحل طے کر رہی ہے غلط ہے۔ یہاں ہر چیز صدوری طور پر ہوتی ہے۔ وقت صرف انسان کی اندرونی واردات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی شئے اندرونی واردات کی حد سے باہر نہیں۔ تغیر اور ارتقاء کے مرحلے اندرونی واردات ہی کے اجزاء ہیں۔ یہ واردات ہی نوعی سراپا کی نقلیں افراد کی شکل و صورت میں چھاپتی ہیں۔ چھپائی کی رفتار معین ہے۔ اسی رفتار کا نام وقت ہے۔ اگر اس رفتار میں کمی بیشی ہو جائے تو لنگڑا، لولا، اندھا چھپنے لگتا ہے۔ حوادث اس طرح رونما ہوتے ہیں۔ جب عارف کا ذہن ایک آن کے لئے صدوری کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے تو یہ بے اعتدالیاں دور ہو جاتی ہیں اور لولے لنگڑے بھلے چنگے ہو جاتے ہیں۔
========================================================================
خواب ہماری زندگی کا حصہ ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر ایسے حواس بھی کام کرتے ہیں جن کے ذریعے انسان کے اوپر غیب کا انکشاف ہو جاتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‘‘ہم ادھیڑ لیتے ہیں رات پر سے دن کو۔’’
(سورہ یٰسین)
آیت مقدسہ کی روشنی میں ہمارے اندر کام کرنے والے دونوں حواس (بیداری کے حواس اور خواب کے حواس) ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں۔ بالکل اس طرح جیسے ایک ورق میں دو صفحے چپکے ہوئے ہوتے ہیں الگ الگ ہونے کے باوجود ورق ایک ہی رہتا ہے دونوں صفحے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر یک جان ہو گئے ہیں۔
انسان کے اندر کام کرنے والے حواس کی نوعیت بھی ورق کی طرح ہے۔ ورق کا ایک صفحہ بیداری اور دوسرا صفحہ خواب۔ دونوں صفحوں پر ایک ہی عبارت لکھی ہوئی ہے۔ صرف زاویۂ نظر کا فرق ہے۔ نظر ایک صفحہ پر تحریر کو زیادہ روشن اور واضح رکھتی ہے اور دوسرے صفحہ کی عبارت کو دھندلا اور غیر واضح دیکھتی ہے۔ روشن اور واضح دیکھنے کی حالت میں نظر ذہن کو عبارت کے مفہوم سے باخبر کر دیتی ہے اور جب نظر اس عبارت کو دھندلا اور غیر واضح دیکھتی ہے تو ذہن اس عبارت کے مفہوم سے قاصر رہتا ہے یعنی اس میں کوئی معانی نہیں پہنا سکتا۔ چونکہ ورق کے دوسرے صفحہ (خواب کے حواس) کی عبارت، بیداری میں کام کرنے والی نظر کے لئے دھندلی ہے۔ اس لئے اس میں زیادہ غور اور فکر کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جب فکر اس عبارت کے اندر مرکوز ہو جاتی ہے تو انسان عبارت کی معنویت میں حقیقت کو تلاش کر لیتا ہے۔
عرض یہ کرنا ہے کہ ورق کے ایک صفحہ کی عبارت کو جو بظاہر روشن ہے۔ ہم سرسری طور پر پڑھ کر کوئی نہ کوئی معنی پہنا لیتے ہیں جس میں حقیقت کا پہلو نظر انداز ہو جاتا ہے اور ورق کے دوسرے صفحہ کی عبارت میں (جو بہت غور اور فکر کے بعد مطالعہ کی جاتی ہے) حقیقت کے چھپے ہوئے پہلو نمایاں ہو جاتے ہیں۔ جس کو ہم خواب دیکھنا کہتے ہیں وہ دراصل ورق کے دوسرے صفحہ کی وہ عبارت ہے جو بیداری کے حواس کی گرفت میں نہیں آتی۔
انسان کے اندر کام کرنے والے حواس، بیداری کے ہوں یا خواب کے۔ غیب سے براہ راست ایک ربط رکھتے ہیں کیونکہ ایک ہی عبارت الگ الگ دو صفحوں پر تحریر ہے اس لئے اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ انسان نے اپنی نادانی کی وجہ سے ایک حصہ کا نام ظاہر اور دوسرے حصہ کا نام غیب رکھ لیا ہے۔ فی الواقع یہ طرز فکر اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ قانون کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ہم نکالتے ہیں رات کو دن سے اور نکالتے ہیں دن کو رات سے۔ اور داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں۔ (قرآن)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے کہ رات اور دن کے حواس ایک ہی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ہم نے ان دو حواسوں میں سے ایک حواس کو اپنے اوپر مسلط کیا ہوا ہے چونکہ یہ تسلط خود ہمارا اختیار کردہ ہے اس لئے ہم نے اس پابندی میں مقید ہو کر خود کو پابند کر لیا ہے اور اس پابندی نے ہمیں اسپیس(Space) اور ٹائم (Time) کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
خواب یا خواب کے حواس میں ہم اسپیس اور ٹائم کے ہاتھ میں کھلونا نہیں ہیں بلکہ ٹائم اور اسپیس ہمارے لئے بنی ہوئی ہے۔
تاریخ کے صفحات میں ایسے کتنے ہی خوابوں کا تذکرہ ملتا ہے جو مستقبل کے آئینہ دار ہیں۔ ان خوابوں میں خواب دیکھنے والے کے مستقبل کا انکشاف ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات یہ خواب پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب نے فرمایا۔
میرے بیٹے جس طرح تو نے دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند تیرے آگے جھکے ہیں اس طرح تیرا پروردگار تجھے برگزیدہ کرنے والا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے والد نے جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بصیرت عطا ہوئی تھی۔ اپنے لخت جگر کو یہ بھی کہا کہ اس خواب کو اپنے بھائیوں کو نہ بتانا۔
(قرآن)
حضرت یعقوب علیہ السلام نے اس خواب میں موجود حضرت یوسف علیہ السلام کے مستقبل کو دیکھ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جگر گوشہ کو ہدایت فرمائی کہ اپنے بھائیوں سے اس خواب کا ذکر نہ کرنا۔ خواب کی تعبیر میں یہ بات ان کے سامنے آ گئی تھی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کی جان کے دشمن ہو جائیں گے۔
ایک نے بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں انگور نچوڑ رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اسے کھا رہے ہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر میں فرمایا۔ انگور نچوڑنے والا بری ہو جائے گا اور اسے پھر ساقی گری سونپ دی جائے گی اور دوسرا سولی پر چڑھایا جائے گا اور اس کا گوشت مردار جانور کھائیں گے۔
میں نے خواب دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں۔ انہیں سات دبلی گائیں نگل رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات دوسری سوکھی۔(قرآن)
بادشاہ کے دربار میں ماہرین خواب نے اس خواب کو بادشاہ کی پریشان خیالی کا مظہر قرار دیا۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر میں فرمایا:
سات برس تک تم لگاتار کھیتی کرتے رہو گے۔ ان سات برسوں میں غلے کی خوب فراوانی ہو گی اور اس کے بعد سات برس بہت سخت مصیبت کے آئیں گے اور سخت قحط پڑ جائے گا۔ ایک دانہ بھی باہر سے نہیں آئے گا۔ ان سات سالوں میں وہی غلہ کام آئے گا جو پہلے سات سالوں میں ذخیرہ رکھا ہو گا۔ (قرآن)
غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن پاک میں بیان شدہ خوابوں میں ایک خواب پیغمبر کا ہے اور تین خواب عام انسانوں کے ہیں۔
========================================================================
========================================================================
========================================================================
پہلے ہم ایک مادّی مثال دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مصّور ہونا چاہے تو وہ تصویر کے خدوخال کو اپنی طبیعت میں رفتہ رفتہ جذب کرتا جاتا ہے۔ اُس کے حافظے میں یہ بات محفوظ ہے کہ کانوں کی ساخت کے لئے پنسل کے ایک خاص وضع کے نشانات استعمال ہوں گے، آنکھوں کی ساخت کے لئے دوسری وضع کے، بالوں کی ساخت کے لئے تیسری وضع کے۔۔۔۔۔ مشق کرتے کرتے وہ انسانی جسم کے ہر عضو کی ساخت کو پنسل کے نقش کی صورت میں پوری طرح ظاہر کرنے پر قابو پاجاتا ہے۔ اب ہم اس کو مصّور کہہ سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ کس طرح ہوا؟۔۔۔۔۔۔
اس کے ذہن میں انسانی خدوخال کا عکس موجود تھا۔ جب اُس عکس کو نقل کرنے کے لئے اُس نے پنسل استعمال کرنا چاہی تو وہ عکس جو اُس کے ذہن میں موجود تھا بار بار اُس کی رہنمائی کرتا رہا۔ ساتھ ساتھ جس استاد نے اس کو مصّوری کا فن سکھایا وہ یہ بتلاتا گیا کہ پنسل اِس طرح استعمال کی جاتی ہے اور کسی عضو کے نقش کو ترتیب دینا اِس طرح عمل میں آتا ہے۔ اُستاد کا کام صرف اِس ہی قدر تھا۔لیکن تصویر کا عکس اُستاد نے اُس کے ذہن میں منتقل نہیں کیا ۔ وہ اُس کے باطن میں پہلے سے موجود تھا۔۔۔۔۔ دوسرے الفاظ میں ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اُس کی روح کے اندر نوع انسانی کے ہزار در ہزار خدوخال محفوظ تھے جب اُس نے ایک اُستاد کی رہنمائی میں اُن خدوخال کو کاغذ پر نقش کرنا چاہا تو وہ تمام نقوش جو ذہن میں موجود تھے، کاغذ پر منتقل ہوگئے۔
علیٰ ہذالقیاس مادّی فنون کی اس قسم کی ہزار ہا مثالیں ہوسکتی ہیں جن سے ہم ایک ہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان بالطبع مصّور، کاتب، درزی، لوہار، بڑھئی، فلسفی، طبیب وغیر ہ وغیرہ سب کچھ ہوتا ہے مگر اُسے کسی خاص فن میں ایک خاص قسم کی مشق کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بعد اُس کے مختلف نام رکھ لئے جاتے ہیں اور ہم اس طرح کہتے ہیں کہ فلاں شخص مصّور ہوگیا۔۔۔۔۔ فلاں شخص فلسفی ہوگیا۔۔۔۔۔ فی الواقع وہ تمام صلاحیتیں اور نقوش اُس کے ذہن میں موجود تھے صرف اُس نے اُن کو بیدار کیا۔ استاد نے جتنا کام کیا وہ صرف صلاحیت کے بیدار کرنے میں ایک امداد ہے۔
اب اہم اصل مقصد کی طرف آتے ہیں۔ جس طرح کوئی شخص مصّور، کاتب یا فلسفی ہوتا ہے اُسی طرح بالطبع اپنی رُوح کے اندر ایک عارف، ایک روحانی انسان، ایک ولی، ایک خداشناس، ایک پیغمبر، خاص قسم کے روحانی نقوش اور خاص قسم کی روحانی صلاحیتیں لئے ہوتا ہے (یہاں کوئی پیغمبر زیرِ بحث اس لئے نہیں کہ پیغمبری ختم ہوچکی ہے۔ صرف رُوحانی انسان اس کا نام کچھ بھی ہو ہمارا مطمع نظر ہے) اب ہم صلاحیتوں کا ذکر الف سے شروع کرتے ہیں ۔
الف: ایک انسان کیا ہے؟۔۔۔۔۔ ہم اس کو کس طرح پہچانتے ہیں اور کیا سمجھتے ہیں؟۔۔۔۔۔
ہمارے سامنے ایک مجسمہ ہے جو گوشت پوست سے مرتب ہے۔ طبی نقطۂ نظر سے ہڈیوں کے ڈھانچہ پر رگ پٹھوں کی بناوٹ کو ایک جسم کی شکل وصورت دی گئی ہے۔ ہم اُس کا نام جسم رکھتے ہیں اور اس کو اصل سمجھتے ہیں۔ اُس کی حفاظت کے لئے ایک چیز اختراع کی گئی ہے جس کا نام لباس ہے۔ یہ لباس سوتی کپڑے کا ، اُونی کپڑے کا یا کسی کھال وغیرہ کا ہوا کرتا ہے۔ اُس لباس کا محلِاستعمال صرف گوشت پوست کے جسم کی حفاظت ہے۔ فی الحقیقت اُس لباس میں اپنی کوئی زندگی یا اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ جب یہ لباس جسم پر ہوتا ہے تو جسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے۔ یعنی اُس کی حرکت جسم سے منتقل ہوکر اس کو ملی۔ لیکن درحقیقت وہ جسم کے اعضاء کی حرکت ہے۔ جب ہم ہاتھ اُٹھاتے ہیں تو آستین بھی گوشت پوست کے ہاتھ کے ساتھ حرکت کرتی ہے یہ آستین اس لباس کا ہاتھ ہے۔۔۔۔۔ جو لباس جسم کی حفاظت کے لئے استعمال ہو اہے اُس لباس کی تعریف کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ جب یہ لباس جسم پر ہے تو جسم کی حرکت اس کے اندر منتقل ہوجاتی ہے اور اگر اس لباس کو اُتار کر چارپائی پر ڈال دیا جائے یا کھونٹی پر لٹکادیا جائے تو اس کی تمام حرکتیں ساقط ہوجاتی ہیں۔اب ہم اس لباس کا جسم کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ اس کی کتنی ہی مثالیں ہوسکتی ہیں یہاں صرف ایک مثال دے کر صحیح مفہوم ذہن نشین ہوسکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی مرگیا۔۔۔۔۔ مرنے کے بعد اُس کے جسم کو کاٹ ڈالئے۔۔۔۔۔ ٹکڑے ٹکڑے کردیجئے، گھسیٹئے، کچھ بھی کیجئے جسم کی اپنی طرف سے کوئی مدافعت کوئی حرکت عمل میں نہیں آئے گی۔ اس مُردہ جسم کو ایک طرف ڈال دیجئے تو اُس میں زندگی کا کوئی شائبہ کسی لمحہ بھی پیدا ہونے کا امکان نہیں ہے اس کو جس طرح ڈال دیا جائے گا پڑا رہے گا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مرنے کے بعد جسم کی حیثیت صرف لباس کی رہ جاتی ہے اصل انسان اس میں موجود نہیں رہتا۔۔۔۔ وہ اُس لباس کو چھوڑ کر کہیں چلا جاتا ہے۔ جب مشاہدات اور تجربات نے یہ فیصلہ کردیا کہ گوشت پوست کا جسم لباس ہے اصل انسان نہیںتو یہ تلاش کرنا ضروری ہوگیا کہ اصل انسان کہاں ہے اور کہاں چلا گیا؟۔۔۔۔۔
اگر یہ جسم اصل انسان ہوتا تو کسی نہ کسی نوعیت سے اُس کے اندر زندگی کاکوئی شائبہ ضرور پایا جاتا لیکن نوعِانسانی کی مکمل تاریخ ایسی ایک مثال بھی پیش نہیں کرسکتی کہ کسی مُردہ جسم نے کبھی کوئی حرکت کی ہو۔
اس صورت میں ہم اُس انسان کا تجسس کرنے پر مجبور ہیں جو جسم کے اس لباس کو چھوڑ کر کہیں رُخصت ہوگیا ہے۔ اُسی انسان کا نام انبیاء کرام علیہم السلام کی زبان میں رُوح ہے اور وہی انسان کا اصلی جسم ہے۔ نیز یہی جسم ان تمام صلاحیتوں کا مالک ہے جن کے مجموعے کو ہم زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔
ذرا زندگی کے مختلف شعبوں اور زاویوں میں یہ تلاش کیجئے کہ وہ حالت جس کا نام موت یا مُرد ہ ہوجانا ہے کہیں ملتی ہے یا نہیں۔۔۔۔۔ اگر یہ حالت قطعی طور پر زندگی کے کسی مرحلہ میں انسان پر طاری نہیں ہوتی تو پھر یہ تلاش کرناچاہئے کہ اس سے ملتی جلتی حالت کسی وقفہ میں طاری ہوتی ہے یا نہیں۔۔۔۔۔
اس کا جواب بہت آسان ہے انسان روز سوتا ہے اور سونے کی حالت میں اس کا جسم ایک خاص وقفہ کے اندر بالکل لباس کی نوعیت اختیار کرلیتا ہے۔ اس بات کی تشریح ہم اس طرح کرسکتے ہیں کہ انسان جب گہری نیند میں ہوتا ہے۔ ایسی گہری نیند میں کہ وہ صرف سانس لے رہا ہے۔ سانس لینے کے علاوہ زندگی کا اثر اس میں نہیں پایاجاتا۔۔۔۔۔ نہ اس کے کسی عضو میں حرکت ہے، نہ اس کا دماغ کسی طرح کا ہوش رکھتا ہے۔ یہ حال چاہے دو منٹ کے لئے طاری ہو، دس منٹ کے لئے ہو یا ایک گھنٹے کے لئے۔۔۔۔۔ کسی نہ کسی وقت ہوتا ضرور ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ انسان کا جسم سانس لے رہاہے یعنی اس کے اندر زندگی کا ایک اثر باقی ہے مگر اور آثار زائل ہوچکے ہیں۔ اس حالت کو ہم کسی حد تک موت سے ملتی جلتی حالت کہہ سکتے ہیں۔
جس کو ہم خواب دیکھنا کہتے ہیں ہمیں رُوح اور رُوح کی صلاحیتوں کا سُراغ دیتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ہم سوئے ہوئے ہیں تمام اعضاء بالکل معطل ہیں، صرف سانس کی آمد وشد جاری ہے لیکن خواب دیکھنے کی حالت میں ہم چل پھر رہے ہیں ، باتیں کر رہے ہیں، سوچ رہے ہیں، غمزدہ اور خوش ہو رہے ہیںکوئی کام ایسا نہیں ہے کہ جو ہم بیداری کی حالت میں کرتے ہیں اور خواب کی حالت میں نہیں کرتے!۔۔۔۔۔ کوئی شخص یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ خواب دیکھنا صرف ایک خیالی چیز ہے اور خیالی حرکات ہیں کیونکہ جب ہم جاگ اُٹھتے ہیں تو کئے ہوئے اعمال کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔ یہ بات بالکل لایعنی ہے۔ ہر شخص کو زندگی میں ایک، دو، چار، دس، بیس ایسے خواب ضرور نظر آتے ہیں کہ جاگ اُٹھنے کے بعد یا تو اُسے نہانے اور غسل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے یا کوئی ڈرائونا خواب دیکھنے کے بعد اس کا پورا خوف و دہشت دل و دماغ پر مسلّط ہوتا ہے یا جو کچھ خواب میں دیکھا ہے وہی چند گھنٹے، چند دن یا چند مہینے یا چند سال بعد من و عن بیداری کی حالت میں پیش آتاہے۔ ایک فردِ واحد بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے اپنی زندگی میں اس طرح کا ایک خواب یا ایک سے زائد خواب نہ دیکھے ہوں گے۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر اس بات کی تردید ہوجاتی ہے کہ خواب محض خیالی حیثیت رکھتا ہے۔ جب یہ مان لیا گیا کہ خواب محض خیال نہیں ہے تو خواب کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔
اب ہم بیداری کے اعمال اور واقعات نیز خواب کے اعمال اور واقعات کو سامنے رکھ کر دونوں کا موازنہ کرتے ہیں۔یہ روزمّرہ ہوتا ہے کہ ہم گھر سے چل کر بازار پہنچ گئے۔۔۔۔ کسی ایک خاص دکان پر کھڑے ہیں اور ایک سودا خرید رہے ہیں۔ اگر اُس وقت کوئی شخص ہم سے یہ سوال کرے کہ دوکان پر پہنچنے تک راستے میں آپ نے کیا کیا دیکھا تو ہم مجبوراً یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے کچھ خیال نہیں کیا۔ بات یہ معلوم ہوئی کہ بیداری کی حالت میں ہمارے اردگرد جو کچھ ہوتا ہے اگر ہم پوری طرح متوجہ نہ ہوں تو کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ کیا ہوا۔۔۔۔۔ کس طرح ہوا اور کب ہوا؟۔۔۔۔۔
اس مثال سے یہ تحقیق ہوجاتا ہے کہ بیداری ہو یا خواب، جب ہمارا ذہن کسی چیز کی طرف یا کسی کام کی طرف متوجہ ہے تو اس کی اہمیت ہے ورنہ بیداری اور خواب دونوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بیداری کا بڑے سے بڑا وقفہ بے خیالی میں گزرتا ہے اور خواب کا بھی بہت سا حصہ بے خبر ی میںگزر جاتا ہے۔ کتنی ہی مرتبہ خواب کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور کتنی ہی مرتبہ بیداری کی کوئی بھی اہمیت نہیں ہوتی۔ پھر کیونکر مناسب ہے کہ ہم خواب کی حالت اور خواب کے اجزاء کو جو زندگی کا نصف حصہ ہے نظر انداز کردیں۔
آئیے، خواب کے اجزائ، خواب کی اہمیت اور خواب کی حقیقت تلاش کریں۔
فرض کیجئے کہ ایک مضمون نگار، مضمون لکھنے بیٹھتا ہے۔ اُس کے ذہن میں صرف عنوان ہے۔ نہ مضمون کے اجزائے ترتیبی ہیں نہ تفصیل ہے۔ مگر وہ جس وقت قلم ہاتھ میں اُٹھا کر لکھنا شروع کرتا ہے تو مضمون کے اجزائے بالترتیب اور بالتفصیل ذہن میں آنے لگتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عبارت کا مفہوم لکھنے والے کے تحت لاشعور میں پہلے سے موجود تھا۔ وہاں سے یہ مفہوم لاشعور یعنی ذہن میں منتقل ہوا اور الفاظ کا لباس پہن کر کاغذ پر منتقل ہوگیا۔ یہ مضمون مفہوم کی حیثیت میں جہاں موجود تھا اُس کا نام ثابتہ ہے جس کو ماہرینِ نفسیات تحت لاشعور کہہ سکتے ہیں۔ پھر یہی مفہوم منتقل ہوکر اعیان میں آیا۔ یعنی لاشعور میں داخل ہوا۔ آخر میں یہی مفہوم عبارت کی شکل و صورت اختیار کرلیتا ہے۔ ہم اسی حالت کو جویّیہ میں منتقل ہونا کہتے ہیںاور عام لوگ مفہوم کی اس منتقلی کو شعور میں آنے کانام دیتے ہیں۔
عالم رویا سے انسان کا تعلق
یہ دیکھا جاتا ہے کہ انسان اپنے ذہن میں کائنات کی ہر چیز سے روشناس ہے۔ ہم جس چیز کو حافظہ کہتے ہیں وہ ہر دیکھی ہوئی چیز کو اور ہر سُنی ہوئی بات کو یاد رکھتا ہے۔ جن چیزوں سے ہم واقف نہیں ہیں ہمارے ذہن میں ان چیزوں سے واقفیت پیدا کرنے کا تجسس موجود ہے، اگر اس تجسس کا تجزیہ کیا جائے تو کئی روحانی صلاحیتوں کا انکشاف ہو جاتا ہے۔ یہی تجسس وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے ہم کائنات کے ہر ذرے سے روشناسی حاصل کرتے ہیں۔ اس قوت کی صلاحیتیں اس قدر ہیں کہ جب ان سے کام لیا جائے تو وہ کائنات کی تمام ایسی موجودات سے جو پہلے کبھی تھیں یا اب ہیں یا آئندہ ہوں گی، واقف ہو جاتی ہیں۔ واقفیت حاصل کرنے کے لئے ہمارا ذہن تجسس کرتا ہے۔ تجسس ایک ایسی حرکت کا نام ہے جو پوری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ قرآن پاک میں اَلَا اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْ ءٍ مُّحِیْطاللہ تعالیٰ کی ہر چیز کو احاطہ کرنے والی صفت کا تذکرہ ہے۔ اس صفت کا عکس انسان کی روح میں پایا جاتا ہے۔ اس ہی عکس کے ذریعے انسان کا تحت لاشعور عالم رویا کائنات کی ہر چیز سے واقف ہے۔
رویا کی صلاحیتوں کے مدارج
نمبر۱ ۔۔۔۔۔۔ کشف الجُونمبر۲ ۔۔۔۔۔۔ کشف الاحقہ
نمبر۳ ۔۔۔۔۔۔ کشف المنام
نمبر۴ ۔۔۔۔۔۔ کشف الملکوت
نمبر۵ ۔۔۔۔۔۔ کشف الکلیات
نمبر۶ ۔۔۔۔۔۔ کشف الوجوب
کشف الجُو
کشف الجُو وہ صلاحیت ہے جس سے ہر انسان نسبتِ وحدت کے تحت روشناس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تشکیل کا نام کائنات ہے۔اس ہی حکم کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی احاطہ کرنے کی صفت کلیات کو منتقل ہوئی ہے۔
کلیات کے تمام اجزاء آپس میں ایک دوسرے کا شعور رکھتے ہیں۔ چاہے فرد کے علم میں یہ بات نہ ہو لیکن فرد کی حیثیت کلیات میں ایک مقام رکھتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان چاند، ستاروں اور اپنی زمین سے الگ ماحول سے روشناس نہ ہو سکتا۔ اس کی نگاہ تمام اجرام سماوی کو دیکھتی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر انسان کی حس زمین سے باہر کے ماحول کو بھی پہچانتی ہے۔ یہی پہچاننا تصوف کی زبان میں صفات الٰہیہ کی معرفت کہلاتا ہے۔ اب ہم اس طرح کہیں گے کہ انسانی شعور کی نگاہ کائنات کے ظاہر کو دیکھتی ہے اور انسانی لاشعور کی نگاہ کائنات کے باطن کو دیکھتی ہے۔ بالفاظ دیگر انسان کا لاشعور اچھی طرح جانتا ہے کہ کائنات کے ہر ذرے کی شکل وصورت، حرکات اور باطنی حسیات کیا ہیں۔ وہ ان تمام حرکات کو صرف اس لئے نہیں سمجھ سکتا کہ اس کو اپنے لاشعور کا مطالعہ کرنا نہیں آتا۔ یہ مطالعہ رویا کی صلاحیتیں بیدار کرنے کے بعد ممکن ہے۔
پہلے ہم رُویا کی اُس صلاحیت کو بیدار کرنے کا تذکرہ کرتے ہیں جس کا نام تصوف کی زبان میں کشف الجُو لیا جاتا ہے۔
مضمون نگار کی مثال سے ظاہر ہے کہ مضمون کا مفہوم پہلے سے کلیات کے شعور میں یعنی مضمون نگار کے تحت لا شعور میں موجود تھا۔
وہیں سے منتقل ہو کر مضمون نگار کے ذہن تک پہنچا۔ اب اگر کوئی شخص اس مضمون کو تحت لاشعور میں مطالعہ کرنا چاہے تو رویا کی اس صلاحیت کے ذریعے جس کو کشف الجُو کہا گیا ہے، مطالعہ کر سکتا ہے۔ خواہ یہ مضمون دس ہزار سال بعد لکھا جانے والا ہو۔ یا دس ہزار سال پہلے لکھا جا چکا ہو۔
جس وقت اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’کُن‘‘ کہا تو ازل سے ابد تک جو کچھ جس طرح اور جس ترتیب کے ساتھ وقوع میں آنا تھا، آ گیا۔ ازل سے ابد تک ہر ذرہ، اس کی تمام حرکات و سکنات موجود ہو گئیں۔ کسی زمانہ میں بھی انہی حرکات کا مظاہرہ ممکن ہے کیونکہ کوئی غیر موجود، موجود نہیں ہو سکتا۔ یعنی کائنات میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہو سکتی جو پہلے سے وجود نہ رکھتی ہو۔
انسان جب کسی زاویہ کو صحیح طور پر سمجھنا چاہتا ہے تو اس کی حیثیت غیر جانبدار یا عدالت کی ہوتی ہے اور وہ بحیثیتِ عدالت کبھی فریق نہیں ہوتا۔ عدالت کو مدعی اور مدعا علیہ کے معاملات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے عدالت ہی کا طرزِ ذہن استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک طرزِ ذہن فریق کا ہے اور ایک طرزِ ذہن عدالت کا ہے۔
ہر شخص کو طرز فکر کے دو زاویے حاصل ہیں۔ ایک زاویہ بحیثیت اہلِ معاملہ اور دوسرا زاویہ بحیثیت غیر جانبدار۔ جب انسان بحیثیت غیر جانبدار تجسس کرتا ہے تو اس پر حقائق منکشف ہو جاتے ہیں۔ تجسس کی یہ صلاحیت ہر فرد کو ودیعت کی گئی ہے تا کہ دنیا کا کوئی طبقہ معاملات کی تفہیم اور صحیح فیصلوں سے محروم نہ رہ جائے۔
لَوحِ اوّل یا لَوحِ محفوظ
اب یہ مسلمہ منکشف ہو گیا کہ انسان کسی غیر جانب دار زاویہ سے حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرے تو قانون لوح محفوظ کے تحت انسانی شعور، لاشعور اور تحت لاشعور کا انطباعیہ نقش معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ انطباع وہ نقش ہے جو بصورت حکم اور بشکل تمثال لوح محفوظ (سطح کلیات) پرکندہ ہے۔ اس ہی کی تعمیل من و عن اپنے وقت پر ظہور میں آتی ہے۔شعور کا یہ قانون ہے کہ اس دنیا میں انسان جتنا ہوش سنبھالتا جاتا ہے اتنا ہی اپنے ماحول کی چیزوں میں انہماک پیدا کرتا جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں ماحول کی تمام چیزیں اپنی اپنی تعریف اور نوعیت کے ساتھ اس طرح محفوظ رہتی ہیں کہ جب اسے ان چیزوں میں سے کسی چیز کی ضرورت پیش آتی ہے تو بہت آسانی سے اپنی مفید مطلب چیز تلاش کر لیتا ہے۔
معلوم ہوا کہ انسانی شعور میں ترتیب کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں کے استعمال کی چیزیں اور حرکات موجود رہتی ہیں۔ گویا ماحول کا ہجوم انسانی ذہن میں پیوست ہے۔ ذہن کو اتنی مہلت نہیں ملتی کہ شعور کی حد سے نکل کر لاشعور کی حد میں قدم رکھ سکے۔
یہاں ایک اصول وضع ہوتا ہے کہ جب انسان یہ چاہے کہ میرا ذہن لاشعور کی حدوں میں داخل ہو جائے تو اس ہجوم کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرے۔ انسانی ذہن ماحول سے آزادی حاصل کر لینے کے بعد، شعور کی دنیا سے ہٹ کر لاشعور کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔
ذہن کے اس عمل کا نام استغناء ہے۔ یہ استغناء اللہ تعالیٰ کی صفتِ صمدیت کا عکس ہے جس کو عرفِ عام میں انخلائے ذہنی کہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس کی مشق کرنا چاہے تو اس کے لئے کتنے ہی ذرائع اور طریقے ایسے موجود ہیں جو مذہبی فرائض کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان فرائض کو ادا کر کے انسان خالی الذہن ہونے کی مہارت حاصل کر سکتا ہے۔
سلوک کی راہوں میں جتنے اسباق پڑھائے جاتے ہیں ان سب کا مقصد بھی انسان کو خالی الذہن بنانا ہے۔ وہ کسی وقت بھی ارادہ کر کے خالی الذہن ہونے کا مراقبہ کر سکتا ہے۔
مراقبہ ایک ایسے تصور کا نام ہے جو آنکھیں بند کر کے کیا جاتا ہے۔ مثلاً انسان جب اپنی فنا کا مراقبہ کرنا چاہے تو یہ تصور کرے گا کہ میری زندگی کے تمام آثار فنا ہو چکے ہیں اور اب میں ایک نقطۂ روشنی کی صورت میں موجود ہوں۔ یعنی آنکھیں بند کر کے یہ تصور کرے کہ اب میں اپنی ذات کی دنیا سے بالکل آزاد ہوں۔ صرف اس دنیا سے میرا تعلق باقی ہے جس کے احاطہ میں ازل سے ابد تک کی تمام سرگرمیاں موجود ہیں۔ چنانچہ کوئی انسان جتنی مشق کرتا جاتا ہے۔ اتنی ہی لوح محفوظ کی انطباعیت اس کے ذہن پر منکشف ہوتی جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ غیب کے نقوش اس اس طرح واقع ہیں اور ان نقوش کا مفہوم اس کے شعور میں منتقل ہونے لگتا ہے۔ انطباعیت کا مطالعہ کرنے کے لئے صرف چند روزہ مراقبہ کافی ہے۔
لوح دوئم
’’جُو‘‘ تصوف کی زبان میں موجودات کا ایسا مجموعہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے خدوخال پر مشتمل ہے۔ ’’جُو‘‘ لوحِ دوئم کہلاتی ہے اس لئے کہ وہ لوح اول یعنی لوح محفوظ کے متن کی تفصیل ہے۔لوح محفوظ کائنات کی تخلیق سے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکامات کا مجموعۂ تصاویر ہے۔ کائنات کے اندر جو بھی حرکت واقع ہونے والی ہے اس کی تصویر من و عن لوح محفوظ پر نقش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ کا اختیار عطا کیا ہے۔ جب انسانی ارادوں کی تصاویر لوح محفوظ کی تصاویر میں شامل ہو جاتی ہیں اس وقت لوح اول لوح دوئم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس ہی لوح دوئم کو صوفیاء اپنی زبان میں ’’جُو‘‘ کہتے ہیں یعنی لوح محفوظ پہلا عالمِ تمثال ہے اور جُو دوسرا عالم تمثال ہے جس میں انسانی ارادے بھی شامل ہیں۔
پہلے اللہ تعالیٰ کی وہ تعریف بیان کرنا ضروری ہے جو قرآن پاک میں کی گئی ہیں:
قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدُٗoاَللہُ الصَّمَدُoلَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ oوَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدُo
ترجمہ:اے پیغمبرﷺ! کہہ دیجئے اللہ ایک ہے۔ بے نیاز ہے۔ نہ کسی نے اس کو جنا نہ اس نے کسی کو جنا۔ اور نہ اس کا کوئی خاندان ہے۔
========================================================================
کراماتِ اولیاء ۔ بابا تاج الدین ناگپوری ؒ
شیر کی عقیدت
شیر کی عقیدت:ایک دن واکی شریف کے جنگل پہاڑی بٹے پر چند لوگوں کے ہمراہ چرھتے چلے گئے۔ نانا رحمۃ اللہ علیہ مسکرا کر کہنے لگے ‘‘ یہاں جس کو شیر کا ڈر ہو وہ چلا جائے ۔ میں تو یہاں ذرا سی دیر آرام کروں گا۔ خیال ہے کہ شیر ضرور آئے گا۔ جتنی دیر قیام کرے اس کی مرضی۔ تم لوگ خواہ مخواہ انتظار میں مبتلا نہ رہو۔ جاؤ، کھاؤ ، پیو اور مزہ کرو’’۔ بعض لوگ اِدھر اُدھر چھپ گئے اور زیادہ چلے گئے۔ میں نے حیات خاں سے کہا کیا ارادہ ہے....؟ پہلے تو حیات خان سوچتا رہا۔ پھر زیرِ لب مسکرا کر خاموش ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے پھر سوال کیا ‘‘ چلنا ہے یا تماشہ دیکھنا ہے؟’’۔
‘‘بھلا بابا صاحب کو چھوڑ کر میں کہاں جاؤں گا؟’’ حیات خاں بولا۔
گرمی کا موسم تھا۔ درختوں کا سایہ اور ٹھنڈی ہوا خمار کے طوفان اُٹھا رہی تھی۔ تھوڑی دور ہٹ کر میں ایک گھنی جھاڑی کے نیچے لیٹ گیا۔ چند قدم کے فاصلے پر حیات خاں اس طرح بیٹھ گیا کہ نانا تاج الدین ؒ کو کن انکھیوں سے دیکھتا رہے۔
اب وہ دبیز گھاس پر لیٹ چکے تھے۔ آنکھیں بند تھیں ۔ فضا میں بالکل سناٹا چھایا ہوا تھا۔ چند منٹ گزرے ہی تھے کہ جنگل بھیانک محسوس ہونے لگا۔ آدھا گھنٹہ، پھر ایک گھنٹہ۔ اس کے بعد کچھ وقفہ ایسے گزرگیا جیسے شدید انتظار ہو۔ یہ انتظار کسی سادھو، کسی جوگی، کسی ولی، کسی انسان کا نہیں تھا بلکہ ایک درندہ کا تھا جو کم از کم میرے ذہن میں قدم بقدم حرکت کررہا تھا۔ یکایک نانا رحمۃ اللہ علیہ کی طرف نگاہیں متوجہ ہوگئیں ۔ ان کے پیروں کی طرف ایک طویل القامت شیر ڈھلان سے اوپر چڑھ رہا تھا.... بڑی آہستگی خرامی سے ، بڑے ادب کے ساتھ۔
شیر نیم وا آنکھوں سے نانا تاج الدین ؒ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ذرا دیر میں وہ پیروں کے بالکل قریب آگیا۔
نانا گہری نیند میں بے خبر تھے۔ شیر زبان سے تلوے چھورہا تھا۔ چند منٹ بعد اُس کی آنکھیں مستانہ داری سے بند ہوگئیں ۔ سر زمین پر رکھ دیا۔
نانا تاج الدین ؒ ابھی تک سو رہے تھے۔
شیر نے اب زیادہ جرأت کرکے تلوے چاٹنے شروع کردیے اس حرکت سے نانا کی آنکھ کھل گئی۔ اُٹھ کر بیٹھ گئے ۔ شیر کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
کہنے لگے ‘‘ توآگیا۔ اب تیری صحت بالکل ٹھیک ہے۔ میں تجھے تندرست دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اچھا اب جاؤ’’۔شیر نے بڑی ممنونیت سے دُم ہلائی اور چلاگیا۔
میں نے ان واقعات پر بہت غور کیا۔ یہ بات کسی کو معلوم نہیں کہ شیر پہلے کبھی ان کے پاس آیا تھا۔ مجبوراً اس امر کا یقین کرنا پڑتا ہے کہ نانا اور شیر پہلے سے ذہنی طور پر ایک دوسرے سے روشناس تھے اور روشناسی کا طریقہ ایک ہی ہوسکتا ہے۔ انا کی جو لہریں نانا اور شیر کے درمیان ردّوبدل ہوتی تھیں وہ آپس کی اطلاعات کا باعث بنتی تھیں۔ عارفین میں کشف کی عام روش یہی ہوتی ہے لیکن اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ جانوروں میں بھی کشف اسی طرح ہوتا ہے۔ کشف کے معاملے میں انسان اور دوسری مخلوق یکساں ہیں ۔
دیوار میں سے گزر جانا
جس زمانے میں والد صاحب دلی ٹول ٹیکس میں محرر تھے، ہمارے مکان کی ایک دیوار بارش میں گر گئی، مکان دار بارش میں مکان کی مرمت کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔نانا تاج الدینؒ نے والد کو خط لکھا کہ بیٹی سعیدہ کو ناگپور پہنچا دو۔ ان ایام میں وہ مہاراجہ رگھوراؤ کے پاس مقیم تھے۔ ہم لوگوں کے لئے شطرنج پورہ میں انتظام کیا گیا، روزانہ یا دوسرے دن نانا اپنی گھوڑا گاڑی میں تشریف لاتے، گھنٹوں ہمارے ساتھ گزارتے اکثر ارد گرد کی آبادی کے لوگوں کا آنا جانا رہتا۔ نانا ان کے معاملات میں غور کرنے میں اتنا دماغ صرف کر دیتے کہ حواس ماؤف ہو جاتے۔ ایک بار بے خیالی میں دروازے کی طرف جانے کے بجائے وہ دیوار کے پیچھے کھڑی گھوڑا گاڑی کی طرف بڑھتے چلے گئے اور ٹھوس دیوار سے گزر کر سڑک پر نکل گئے۔ غالباً! یہ کرامت ان سے غیر ارادی طور پر صادر ہوئی تھی، لوگوں کے معاملات کے متعلق سوچنے میں ان کا ذہن تجلی الٰہی میں تحلیل ہو گیا اور جسم ذہن کے تابع ہونے کی وجہ سے ثقل کی منزل سے آگے نکل گیا۔
لنگڑا بیساکھی چھوڑ بھاگا
ایک لنگڑا نوجوان شفا خانے میں آ کر ٹھہر گیا۔ یہ شفا خانہ بھی مسجد اور مدرسے کی طرح پھونس کی جھونپڑیوں پر مشتمل تھا۔ لنگڑا صبح کھا پی کر شفاخانے سے چلتا اور نانا تاج الدین کے سامنے آ بیٹھتا۔ سلام کر کے لنگڑی ٹانگ پھیلا کر اپنا ہاتھ پھیرنے لگتا اور ایسا منہ بناتا کہ جیسے بڑی تکلیف میں ہے۔ نانا ‘‘ہوں’’ کہہ کر چپ ہو جاتے۔ اس طرح دو مہینے گزر گئے۔ لنگڑا تھا بڑا اڑیل، اپنے معمول پر قائم رہا۔ ایک روز غصے میں بھرا ہوا آیا اور نانا کی طرف دیکھ کر بڑبڑانے لگا۔ ‘‘خدا نے مجھے لنگڑا کر دیا جن کی ٹانگیں ہیں ان کو کچھ احساس نہیں ہوتا۔ سنا تھا کہ خدا کے یہاں انصاف ہے۔ انصاف کو بھی جھنجوڑ کر دیکھ لیا۔ لوگ خدا خدا پکارتے ہیں لیکن خدا والوں کو بھی دیکھ لیا۔ یہ بھی سب گونگے بہرے ہیں۔ خدا اور خدا والوں سے تو میری بیساکھی اچھی ہے سہارا تو دیتی ہے۔’’نانا اس کی باتیں سن کر جھنجلا گئے اور چیخ کر بولے ‘‘جا دفان ہو جا۔ بھلا چنگا ہو کر لنگڑا بنتا ہے۔ جھوٹا کہیں کا’’ اور یہ کہہ کر لنگڑے کو مارنے کے لئے دوڑے۔ لنگڑا بیساکھی چھوڑ کر بھاگا۔ اب اس کی لنگڑی ٹانگ بالکل ٹھیک ہو چکی تھی۔
انسان علی شاہ، نانا تاج الدینؒ کے فیض یافتہ تھے۔ ان کو روحانی علوم پر عبور تھا اور سوچنے کی طرزیں بھی نانا سے ملتی تھیں۔ انہوں نے نانا کی حیات میں ترک وطن کر کے شکر درہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ایک دن لنگڑے کا واقعہ زیر بحث آ گیا۔
انسان علی شاہ کہنے لگے۔ اس واقعہ کی توجیہہ مشکل نہیں۔ یہ سمجھنا کہ کائنات اور ارتقائی مراحل طے کر رہی ہے غلط ہے۔ یہاں ہر چیز صدوری طور پر ہوتی ہے۔ وقت صرف انسان کی اندرونی واردات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی شئے اندرونی واردات کی حد سے باہر نہیں۔ تغیر اور ارتقاء کے مرحلے اندرونی واردات ہی کے اجزاء ہیں۔ یہ واردات ہی نوعی سراپا کی نقلیں افراد کی شکل و صورت میں چھاپتی ہیں۔ چھپائی کی رفتار معین ہے۔ اسی رفتار کا نام وقت ہے۔ اگر اس رفتار میں کمی بیشی ہو جائے تو لنگڑا، لولا، اندھا چھپنے لگتا ہے۔ حوادث اس طرح رونما ہوتے ہیں۔ جب عارف کا ذہن ایک آن کے لئے صدوری کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے تو یہ بے اعتدالیاں دور ہو جاتی ہیں اور لولے لنگڑے بھلے چنگے ہو جاتے ہیں۔
========================================================================
خواب کی تعبیر
خواب ہماری زندگی کا حصہ ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر ایسے حواس بھی کام کرتے ہیں جن کے ذریعے انسان کے اوپر غیب کا انکشاف ہو جاتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‘‘ہم ادھیڑ لیتے ہیں رات پر سے دن کو۔’’
(سورہ یٰسین)
آیت مقدسہ کی روشنی میں ہمارے اندر کام کرنے والے دونوں حواس (بیداری کے حواس اور خواب کے حواس) ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں۔ بالکل اس طرح جیسے ایک ورق میں دو صفحے چپکے ہوئے ہوتے ہیں الگ الگ ہونے کے باوجود ورق ایک ہی رہتا ہے دونوں صفحے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر یک جان ہو گئے ہیں۔
انسان کے اندر کام کرنے والے حواس کی نوعیت بھی ورق کی طرح ہے۔ ورق کا ایک صفحہ بیداری اور دوسرا صفحہ خواب۔ دونوں صفحوں پر ایک ہی عبارت لکھی ہوئی ہے۔ صرف زاویۂ نظر کا فرق ہے۔ نظر ایک صفحہ پر تحریر کو زیادہ روشن اور واضح رکھتی ہے اور دوسرے صفحہ کی عبارت کو دھندلا اور غیر واضح دیکھتی ہے۔ روشن اور واضح دیکھنے کی حالت میں نظر ذہن کو عبارت کے مفہوم سے باخبر کر دیتی ہے اور جب نظر اس عبارت کو دھندلا اور غیر واضح دیکھتی ہے تو ذہن اس عبارت کے مفہوم سے قاصر رہتا ہے یعنی اس میں کوئی معانی نہیں پہنا سکتا۔ چونکہ ورق کے دوسرے صفحہ (خواب کے حواس) کی عبارت، بیداری میں کام کرنے والی نظر کے لئے دھندلی ہے۔ اس لئے اس میں زیادہ غور اور فکر کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جب فکر اس عبارت کے اندر مرکوز ہو جاتی ہے تو انسان عبارت کی معنویت میں حقیقت کو تلاش کر لیتا ہے۔
عرض یہ کرنا ہے کہ ورق کے ایک صفحہ کی عبارت کو جو بظاہر روشن ہے۔ ہم سرسری طور پر پڑھ کر کوئی نہ کوئی معنی پہنا لیتے ہیں جس میں حقیقت کا پہلو نظر انداز ہو جاتا ہے اور ورق کے دوسرے صفحہ کی عبارت میں (جو بہت غور اور فکر کے بعد مطالعہ کی جاتی ہے) حقیقت کے چھپے ہوئے پہلو نمایاں ہو جاتے ہیں۔ جس کو ہم خواب دیکھنا کہتے ہیں وہ دراصل ورق کے دوسرے صفحہ کی وہ عبارت ہے جو بیداری کے حواس کی گرفت میں نہیں آتی۔
انسان کے اندر کام کرنے والے حواس، بیداری کے ہوں یا خواب کے۔ غیب سے براہ راست ایک ربط رکھتے ہیں کیونکہ ایک ہی عبارت الگ الگ دو صفحوں پر تحریر ہے اس لئے اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ انسان نے اپنی نادانی کی وجہ سے ایک حصہ کا نام ظاہر اور دوسرے حصہ کا نام غیب رکھ لیا ہے۔ فی الواقع یہ طرز فکر اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ قانون کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ہم نکالتے ہیں رات کو دن سے اور نکالتے ہیں دن کو رات سے۔ اور داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں۔ (قرآن)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے کہ رات اور دن کے حواس ایک ہی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ہم نے ان دو حواسوں میں سے ایک حواس کو اپنے اوپر مسلط کیا ہوا ہے چونکہ یہ تسلط خود ہمارا اختیار کردہ ہے اس لئے ہم نے اس پابندی میں مقید ہو کر خود کو پابند کر لیا ہے اور اس پابندی نے ہمیں اسپیس(Space) اور ٹائم (Time) کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
خواب یا خواب کے حواس میں ہم اسپیس اور ٹائم کے ہاتھ میں کھلونا نہیں ہیں بلکہ ٹائم اور اسپیس ہمارے لئے بنی ہوئی ہے۔
تاریخ کے صفحات میں ایسے کتنے ہی خوابوں کا تذکرہ ملتا ہے جو مستقبل کے آئینہ دار ہیں۔ ان خوابوں میں خواب دیکھنے والے کے مستقبل کا انکشاف ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات یہ خواب پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
گیارہ ستارے، سورج اور چاند
سورۂ یوسف میں مستقبل کے آئینہ دار خوابوں کا ذکر آیا ہے۔ یوسف نے کہا۔ اے میرے باپ میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند۔ میں نے دیکھا کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب نے فرمایا۔
میرے بیٹے جس طرح تو نے دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند تیرے آگے جھکے ہیں اس طرح تیرا پروردگار تجھے برگزیدہ کرنے والا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے والد نے جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بصیرت عطا ہوئی تھی۔ اپنے لخت جگر کو یہ بھی کہا کہ اس خواب کو اپنے بھائیوں کو نہ بتانا۔
(قرآن)
حضرت یعقوب علیہ السلام نے اس خواب میں موجود حضرت یوسف علیہ السلام کے مستقبل کو دیکھ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جگر گوشہ کو ہدایت فرمائی کہ اپنے بھائیوں سے اس خواب کا ذکر نہ کرنا۔ خواب کی تعبیر میں یہ بات ان کے سامنے آ گئی تھی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کی جان کے دشمن ہو جائیں گے۔
دو قیدیوں کے خواب
اس طرح جب حضرت یوسف علیہ السلام زندان مصر میں قید تھے۔ قیدیوں نے جن میں ایک بادشاہ کا ساقی تھا اور دوسرا باورچی تھا۔ اور وہ بادشاہ کو زہر سے ہلاک کرنے کی سازش میں پکڑے گئے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنےاپنے خواب سنائے۔ایک نے بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں انگور نچوڑ رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اسے کھا رہے ہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر میں فرمایا۔ انگور نچوڑنے والا بری ہو جائے گا اور اسے پھر ساقی گری سونپ دی جائے گی اور دوسرا سولی پر چڑھایا جائے گا اور اس کا گوشت مردار جانور کھائیں گے۔
14 سال کے غیب کا انکشاف
عزیز مصر نے تمام درباریوں کو جمع کر کے کہا۔میں نے خواب دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں۔ انہیں سات دبلی گائیں نگل رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات دوسری سوکھی۔(قرآن)
بادشاہ کے دربار میں ماہرین خواب نے اس خواب کو بادشاہ کی پریشان خیالی کا مظہر قرار دیا۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر میں فرمایا:
سات برس تک تم لگاتار کھیتی کرتے رہو گے۔ ان سات برسوں میں غلے کی خوب فراوانی ہو گی اور اس کے بعد سات برس بہت سخت مصیبت کے آئیں گے اور سخت قحط پڑ جائے گا۔ ایک دانہ بھی باہر سے نہیں آئے گا۔ ان سات سالوں میں وہی غلہ کام آئے گا جو پہلے سات سالوں میں ذخیرہ رکھا ہو گا۔ (قرآن)
غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن پاک میں بیان شدہ خوابوں میں ایک خواب پیغمبر کا ہے اور تین خواب عام انسانوں کے ہیں۔
========================================================================
========================================================================
========================================================================
یہ اس ماہ کے ڈائجسٹ کے محض چند تعارفی صفحات ہیں۔
کاپی رائٹ ایکٹ کے تحت اس ڈائجسٹ کے مضامین بلا اجازت شائع نہیں کیے جاسکتے۔
مضمون کا کوئی حصہ کسی کتاب میں شامل یا انٹر نیٹ پر شئیر کرتے ہوئے روحانی ڈائجسٹ کا حوالہ ضرور تحریر کریں۔
========================================================================مضمون کا کوئی حصہ کسی کتاب میں شامل یا انٹر نیٹ پر شئیر کرتے ہوئے روحانی ڈائجسٹ کا حوالہ ضرور تحریر کریں۔